0

Yaar Bhi Rah Ki Diwar

‏یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
‏میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے

‏جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں
‏دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے

‏کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
‏آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے

‏نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
‏اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے

‏میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
‏اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے

‏میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
‏دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے

‏وہ جو اس پار ہیں اس پار مجھے جانتے ہیں
‏یہ جو اس پار ہیں اس پار سمجھتے ہیں مجھے

‏میں تو یوں چپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
‏اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے

‏روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
‏ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے

‏جرم یہ ہے کہ ان اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
‏اور سزا یہ ہے کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے

‏لاش کی طرح سر آب ہوں میں اور شاہدؔ
‏ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مجھے

‏شاہد ذکی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *