
کسی بے دید کو ہم دیدہ ور اچھے نہیں لگتے
کہ جیسے رہزنوں کو راہبر اچھے نہیں لگتے
مُجھے اِس کارگاہِ زیست کو پھر سے بسانا ہے
یہ آڑھے ٹیڑھے بے ترتیب گھر اچھے نہیں لگتے
بہت لازم ہے اِن میں سرکشی اور سرفروشی ہو
ہر اک چوکھٹ پہ سجدہ ریز سر اچھے نہیں لگتے
فقیروں میں بھی اتنی بے نیازی ہم نے دیکھی ہے
وہاں دستک نہیں دیتے جو در اچھے نہیں لگتے
یہ کیسا دور ہے تخریب کو ایجاد کہتا ہے
جو ننگِ آدمیت ہوں ہنر اچھے نہیں لگتے
چلو ہم خود ہی چل کر ان کو اپنا حال کہہ آئیں
ہمارے حال سے وہ بے خبر اچھے نہیں لگتے
کوئی مقصد تو ہونا چاہئیے آخر مُسافت کا
یہ بے مقصد یہ بے معنی سفر اچھے نہیں لگتے
اُٹھو اور اُٹھ کے اِس دھرتی کا سینہ چیر کر رکھ دو
یہ آہیں اور یہ نالے بے اثر اچھے نہیں لگتے
جہاں اِنسان کو دو وقت کی روٹی نہیں مِلتی
وہاں پر عیش کرتے اہلِ زر اچھے نہیں لگتے
جہاں اِک سمت تو خلقِ خُدا پستی میں رہتی ہے
مُقابل میں یہ اوُنچے بام و در اچھے نہیں لگتے
کُچھ ایسے ہیں کہ جن کو کور چشموں سے محبت ہے
کُچھ ایسے ہیں جنہیں اہلِ نظر اچھے نہیں لگتے
مُجھے بے فیض اِنسانوں سے اسؔلم سخت نفرت ہے
کہیں بھی ہوں یہ بے سایہ شجر اچھے نہیں لگتے
(اسلم گورداسپوری)